گو پ صاحب۔ برائے مہربانی بعد میں آنے والے چند مزید جملے تحریر کیجئے۔
میرے خیال میں عورت کا نام زَمُرُّد ہے اور لفظ شائد کو شاید لکھنا چاہیئے۔
قریش پور صاحب، لفظ شاید کے غلط املا کی نشاندہی کرنے کا شکریہ۔
نمرہ احمد کے ناول 'نمل' کا انگریزی زبان میں جائزہ لیا گیا تھا جس میں اس عورت کا نام ”زُمَر” لکھا
گیاتھا۔
میں متن سے مزید سطریں ذیل میں دے رہا ہوں۔ سیاق و سباق یہ ہے: ایک آدمی کو قتل کا الزام لگایا
گیا ہے اور اس پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ اس کا نام فارس غازی ہے۔ پراسیکیوٹر کا نام زمر ہے۔
میں نے جو حوالہ نقل کیا ہے وہ پراسیکیوٹر زمراور جج صاحب کے اپنے چیمبر میں ہونے والی گفتگو سے ہے۔
*
“شاید وہ ٹھیک ہیں۔ میں اپنے غم، بیماری اور ٹراما میں خود غرض ہو گئی ہوں ۔ میں نے دوسری طرف کی
کہانی سننا چھوڑ دی ہے۔مجھے اس کی بات سننی چاہیے تھی۔ وہ قتل تھا یا نہیں، مجھےاس سے ملنا چاہیے
تھا۔”
“ تمہاری جگہ کوئی دوسرا بھی ہوتا تو یہی کرتا۔”
“ مگر میں کوئی دوسری عورت نہیں ہوں۔ میں زمر تھی۔ مجھے اپنے جذبات ایک طرف رکھنے چاہیے تھے۔”
انہوں نے جواباً اکتاکر ناک سے مکھی اڑائی۔
“یہ کتابی باتیں ہیں، کوئی بھی انسان اتنا غیر جانبدار نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے دوست وکلاء ہم
ججوں کےسامنے پیش ہونے سے یہ کہہ کر معذرت نہ کر لیتے کہ یہاں
conflict of interest
آ گیا ہے۔
وکیلوں کے بھی جذبات ہوتےہیں۔”
“اور بطور ایک جج آپ کو کیا لگتا ہے؟” وہ بالکل خالی نظروں سے ان کو دیکھتی پوچھ رہی تھی۔
“جتنا میں نے اس کیس کے بارے میں سن رکھا ہے، میرا خیال ہے فارس غازی مجرم ہے۔” عینک کے
بازو کا کنارہ دانتوں میں دبائے، وہ کندھے اچکا کر بولے۔
“کیو نکہ ثبوت اس کے خلاف ہیں؟ مگر قانون تو یہ کہتا ہے کہ عدالت کا فیصلہ آنے تک ملزم کو “مجرم” نہ
کہا جائے بلکہ اسے
presumed innocent
سمجھا جائے۔” وہ بہت تکلیف میں بول رہی تھی۔
“یہ درست ہے۔”
“اور قانون یہ بھی کہتا ہے کہ اگر ایک طرف ملزم کے خلاف شواہد کا پہاڑ ہو، مگر دوسری جانب اتنا ذرا
سا ….. “ انگوٹھااور انگشتِ شہادت قریب کرکے بتایا۔ “اتنا ذرا سا بھی شک ہو،
reasonable doubt
ہو، تو ہمیں ملزم کو بری کر دینا چاہیےکیو نکہ سو گناہگاروں کو بری کر دینا ایک معصوم کو سزا دینے سے بہتر ہے۔”
اور پھر وہ خاموش ہو گئی۔ چند لمہے اس سناٹے میں پھسل گئے۔
“میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، اور وہ جھوٹ نہیں بول رہا تھا، سر۔”
عینک کا ہینڈل چباتے ہوئے انہوں نے ہنکارا بھرا۔ “ہوں، تو تمہیں کیا ڈر ہے؟”
“اگر میری وجہ سے ایک بے گناہ آدمی کو سزا ہوئی تو میں زندگی میں کبھی دوبارہ لاء نہیں پریکٹس کر سکوں
گی۔”
جسٹس مکرم آگے کو ہوئے، سوچتے ہوئے عینک کے کنارے سے میز پہ نادیدہ لکیریں کھینچیں۔
“تو پھر؟ کیا وہ بے گناہ ہے؟”
“میرے پاس بہت کچھ ہے جو اس کو مجرم ثابت کرتا ہے میری نظروں میں، مگر ان کے پاس
reasonable doubt
ہے
اور اگرمیں ان دونوں کو ان پلڑوں میں رکھوں…..” میز پر رکھے ڈیکوریشن
ترازو کی سمت اشارہ کیا۔ “تو رتی بھر شک کا پلڑا ہمیشہ جھک جائےگا۔”
“شک کیا ہے؟”
“وہ آواز جو میں نے سنی، وہ جعلی تھی۔ یہ میرے لئے ماننا بہت مشکل ہے، آپ کے لئے بھی ہوگا،
لیکن…..” وہ بے چینی سےآگے کو ہوئی۔ “اب دو باتیں ہیں۔ اول، قاتل فارس ہی تھااور یہ آڈیو ردوبدل
کے بعد پیش کی گئی ہے، اسی لئے وہ لوگ اس کاسورس نہیں بتا رہے دوم، (ایک گہری سانس لی) آڈیو
اصلی ہے، وہ فارس نہیں تھا، وہ ایک جعلی آواز تھی۔”
“تمہارا دل کیا کہتا ہے؟”
“دل سے آخری فتویٰ لیا جاتا ہے، پہلا نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ وہی مجرم ہے، اسی نے کیا ہے یہ
سب۔ لیکن…..” اور یہیں آکراس کا پورا وجود کرب میں مبتلا ہو جاتا۔
“تمہارے دل میں شک آ گیا ہے۔”
زمر نے اثبات میں سر ہلایا
(Namal, p.383-384)
(All the quotation marks have come wrong, kindly excuse me)
My interpretation is that she's just very wrapped up in her feelings of guilt and, as a result, finds her interlocutor's attempted consolation to be trivial, pointless, and annoying, like a makkhii on her naak -- so she swats this attempted consolation away (ie, rejects it) by responding, "But I am not some other woman..."
aevynn SaaHib, from the context, this seems to be very plausible. As asked by Qureshpor SaaHib, I am giving more context, and would be interested to know what he thinks.
۔