The following passage is from Mumtaz Mufti.The author feels he is being treated as Noor Deen. I wonder who Noor Deen is:
نور دین
عین اس وقت مجھے اشفاق حسین کی بات یاد آگئی۔ او ہو میں تو ممتاز مفتی ہوں۔ میں نے حج پر ایک کتاب لکھی ہے۔ حج آفس والے ضرور پہچان لیں گے۔ ابھی ابھی یہ شخص کاغذات میں میرا نام پڑھے گا ممتاز مفتی تو اٹھ کر کھڑا ہو جائے گا آپ ! آپ ممتاز مفتی ہیں۔ بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ اپنا ہاتھ آگے بڑھائے گا۔ پڑی گرم جوشی سے مصافحہ کرے گا۔ ہمارے لئے یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ آپ زائرین پارٹی کے ساتھ عرس پر تشریف لے جا رہے ہیں۔غالباً سفر نامہ تو ضرور لکھیں گے۔ میں نے آپ کی لبیک پڑھی ہے۔ چائے کاایک پیالہ پیش کروں۔
”ہوں” _ اس نے کاغزات کا سرسری جائزہ لے کر سر اٹھایا اور یوں میری طرف دیکھا چیسے میں ممتاز مفتی نہیں نور دین تھا۔
نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کیسےہو سکتا ہے کہ حج آفس کے کارندے نے لبیک نہ پڑھی ہو۔لازماً حج آفس کی لائبریری میں پڑی ہوگی۔ ضرور کوئی غلطی ہے۔ ورنہ ورنہ ورنہ_
اس نے دوبارہ سر اٹھایا۔ اس کا چہرا اکتاہٹ سے سوجا ہوا تھا۔ “ٹھیک ہے”۔ وہ کاغذات دراز میں رکھتے ہوئے بولا۔
“جناب ان کاغذات کی رسید دیں گے”۔ نوردین بولا۔
”رسید”۔ اس نے خشمگین نگاہ ڈالی۔
”ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔“۔ نور دین نے اپنی گستاخی کو رو کرنے کے لئے کہا۔
……
اس نے ہاتھ کے اشارے سے نور دین کو خاموش کر دیا۔
…
نور دین عالم بے بسی میں اٹھ بیٹھا۔
…
میں وہاں سے بھاگا ۔ یوں بھاگا جیسے مجرم جائے واردات سے بھاگتا ہے۔
.Thanks.
نور دین
عین اس وقت مجھے اشفاق حسین کی بات یاد آگئی۔ او ہو میں تو ممتاز مفتی ہوں۔ میں نے حج پر ایک کتاب لکھی ہے۔ حج آفس والے ضرور پہچان لیں گے۔ ابھی ابھی یہ شخص کاغذات میں میرا نام پڑھے گا ممتاز مفتی تو اٹھ کر کھڑا ہو جائے گا آپ ! آپ ممتاز مفتی ہیں۔ بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ اپنا ہاتھ آگے بڑھائے گا۔ پڑی گرم جوشی سے مصافحہ کرے گا۔ ہمارے لئے یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ آپ زائرین پارٹی کے ساتھ عرس پر تشریف لے جا رہے ہیں۔غالباً سفر نامہ تو ضرور لکھیں گے۔ میں نے آپ کی لبیک پڑھی ہے۔ چائے کاایک پیالہ پیش کروں۔
”ہوں” _ اس نے کاغزات کا سرسری جائزہ لے کر سر اٹھایا اور یوں میری طرف دیکھا چیسے میں ممتاز مفتی نہیں نور دین تھا۔
نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کیسےہو سکتا ہے کہ حج آفس کے کارندے نے لبیک نہ پڑھی ہو۔لازماً حج آفس کی لائبریری میں پڑی ہوگی۔ ضرور کوئی غلطی ہے۔ ورنہ ورنہ ورنہ_
اس نے دوبارہ سر اٹھایا۔ اس کا چہرا اکتاہٹ سے سوجا ہوا تھا۔ “ٹھیک ہے”۔ وہ کاغذات دراز میں رکھتے ہوئے بولا۔
“جناب ان کاغذات کی رسید دیں گے”۔ نوردین بولا۔
”رسید”۔ اس نے خشمگین نگاہ ڈالی۔
”ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔“۔ نور دین نے اپنی گستاخی کو رو کرنے کے لئے کہا۔
……
اس نے ہاتھ کے اشارے سے نور دین کو خاموش کر دیا۔
…
نور دین عالم بے بسی میں اٹھ بیٹھا۔
…
میں وہاں سے بھاگا ۔ یوں بھاگا جیسے مجرم جائے واردات سے بھاگتا ہے۔
.Thanks.
Last edited: