ہاں یہ تو ٹھیک ہے لیکن کرشن چندر اردو کے ادیب تھے۔ ممکن ہے کہ اِس افسانے میں وہ مقامی تلفّط کی عکاّسی کر رہے ہوں۔
جہاں تک اردو میں زردالو اور خوبانی کا تعلّق ہے، دونوں ایک ہی پھل کے دو نام ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ لفظ خوبانی بالخصوص خشک زردالو کے لئے مستعمل ہے۔

لگتا ہے یہاں لفظِ خشک زائد ہے اِلّا یہ کہ وہ معمول سے زیادہ خشک تھیں۔
یہ ملاحظہ کریں۔ یہاں جردالو اور خوبانی کے پیڑوں کا علاحدہ علاحدہ ذکر کیا گیا، یعنی دونوں مختلف چیزیں ہیں۔
میں نے آہستہ سے کشتی کھولی۔ وہ کشتی میں بیٹھ گئی۔ میں نے چپو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور کشتی کو کھے کر جھیل کے مرکز میں لے گیا۔ یہاں کشتی آپ ہی آپ کھڑی ہو گئی۔ نہ ادھر بہتی تھی نہ ادھر۔ میں نے چپو اٹھا کر کشتی میں رکھ لیا۔ اس نے پوٹلی کھولی۔ اس میں سے جردالو نکال کر مجھے دیئے۔ خود بھی کھانے لگی۔
جردالو خشک تھے اور کھٹے میٹھے۔ وہ بولی، ’’یہ پچھلی بار کے ہیں۔‘‘ میں جردالو کھاتا رہا اور اس کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ آہستہ سے بولی، ’’پچھلی بہار میں تم نہ تھے۔‘‘
پچھلی بہار میں، میں نہ تھا۔ اور جردالو کے پیڑ پھولوں سے بھر گئے تھے اور ذرا سی شاخ ہلانے پر پھول ٹوٹ کر سطح زمین پر موتیوں کی طرح بکھر جاتے تھے۔ پچھلی بہار میں، میں نہ تھا اور جردالو کے پیڑ پھلوں سے لدے پھندے تھے۔ سبز سبز جردالو۔ سخت کھٹے جردالو جو نمک مرچ لگا کے کھائے جاتے تھے اور زبان سی سی کرتی تھی اور ناک بہنے لگتی تھی اور پھر بھی کھٹے جردالو کھائے جاتے تھے۔ پچھلی بہار میں، میں نہ تھا۔ اور یہ سبز سبز جردالو، پک کے پیلے اور سنہرے اور سرخ ہوتے گئے اور ڈال ڈال میں مسرت کے سرخ شگوفے جھوم رہے تھے اور مسرت بھری آنکھیں، چمکتی ہوئی معصوم آنکھیں انہیں جھومتا ہوا دیکھ کر رقص سا کرنے لگتیں۔ پچھلی بہار میں، میں نہ تھا اور سرخ سرخ جردالو خوبصورت ہاتھوں نے اکٹھے کر لئے۔ خوبصورت لبوں نے ان کا تازہ رس چوسا اور انہیں اپنے گھر کی چھت پر لے جاکر سوکھنے کے لئے رکھ دیا کہ جب یہ جردالو سوکھ جائیں گے، جب ایک بہار گزر جائے گی اور دوسری بہار آنے کو ہو گی تو میں آؤں گا اور ان کی لذت سے لطف اندوز ہو سکوں گا۔
جردالو کھا کے ہم نے خشک خوبانیاں کھائیں۔ خوبانی پہلے تو بہت میٹھی معلوم نہ ہوتی مگر جب دہن کے لعاب میں گھل جاتی تو شہد و شکر کا مزہ دینے لگتی۔ ’’نرم نرم بہت میٹھی ہیں یہ۔‘‘ میں نے کہا، اس نے ایک گٹھلی کو دانتوں سے توڑا اور خوبانی کا بیج نکال کے مجھے دیا۔ ’’کھاؤ۔‘‘
بیج بادام کی طرح میٹھا تھا۔
’’ایسی خوبانیاں میں نے کبھی نہیں کھائیں۔‘‘
اس نے کہا، ’’یہ ہمارے آنگن کا پیڑ ہے۔ ہمارے ہاں خوبانی کا ایک ہی پیڑ ہے۔ مگر اتنی بڑی اور سرخ اور میٹھی خوبانیاں ہوتی ہیں اس کی کہ میں کیا کہوں۔ جب خوبانیاں پک جاتی ہیں تو میری ساری سہیلیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں اور خوبانیاں کھلانے کو کہتی ہیں۔ پچھلی بہار میں۔۔۔‘‘
اور میں نے سوچا، پچھلی بہار میں، میں نہ تھا۔ مگر خوبانی کا پیڑ آنگن میں اسی طرح کھڑا تھا۔ پچھلی بہار میں وہ نازک نازک پتوں سے بھر گیا تھا۔ پھر ان میں کچی خوبانیوں کے سبز اور نوکیلے پھل لگے تھے۔ ابھی ان خوبانیوں میں گٹھلی پیدا نہ ہوئی تھی اور یہ کچے کھٹے پھل دوپہر کے کھانے کے ساتھ چٹنی کا کام دیتے تھے۔ پچھلی بہار میں، میں نہ تھا اور پھر ان خوبانیوں میں گٹھلیاں پیدا ہو گئی تھیں اور خوبانیوں کا رنگ ہلکا سنہرا ہونے لگا تھا اور گٹھلیوں کے اندر نرم نرم بیج اپنے ذائقے میں سبز باداموں کو بھی مات کرتے تھے۔ پچھلی بہار میں، میں نہ تھا۔ اور یہ سرخ سرخ خوبانیاں جو اپنی رنگت میں کشمیری دوشیزاؤں کی طرح صبیح تھیں اور ایسی ہی رس دار۔ سبز سبز پتوں کے جھومروں سے جھانکتی نظر آتی تھیں۔ پھر الہڑ لڑکیاں آنگن میں ناچنے لگیں اور چھوٹا بھائی درخت کے اوپر چڑھ گیا اور خوبانیاں توڑ توڑ کر اپنی بہن کی سہیلیوں کے لئے پھینکتا گیا۔ کتنی میٹھی تھیں، وہ پچھلی بہار کی رس بھری خوبانیاں۔ جب میں نہ تھا۔۔۔